انہوں نے یہ بات جعمہ کی رات لاہور میں مال روڈ پر گورنر راج کے خلاف نکالی جانے والی ریلی کے اختتام پر ایک بڑے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔لاہور میں نکالی جانے والی ریلی نیلا گنبد سے شروع ہوئی اور پنجاب اسمبلی کے سامنے پہنچ کر ختم ہوگئی۔
ریلی کے شرکاء میں نوازشریف اور شہباز شریف کی تصاویر کے علاوہ مسلم لیگ کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے اور وہ وزیر اعظم نواز شریف اور شیر شیر کے نعرے لگاتے رہے۔
پنجاب میں مسلم لیگ نون کی حکومت کے خاتمہ اور صوبے میں گورنر راج کےخلاف چند تاجر تنظیموں کی اپیل کی گئی۔لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں زیادہ تر مارکیٹں بند رہیں۔
نواز شریف نے کہا کہ پہلے فوجی مارشل لا آتے تھے لیکن آج جمہوریت کے خلاف خود جمہوری لوگ سازش کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ان حالات کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہیں۔
انہوں نے آصف زرداری پر تنقید کی اور کہا کہ اصل پیپلز پارٹی وہ نہیں ہے جو آصف زرداری کی پالیسی ہے بلکہ اصل پیپلز پارٹی کی رائے کچھ اور ہے۔انہوں نے صدر زرداری سے کہا کہ وہ اپنی پالیسی کو تبدیل کریں۔
ان کا کہنا ہے کہ صدر آصف زرداری کو فیصلے کرنے سے پہلے اپنی پارٹی سے مشورہ کرلینا چاہئے کیونکہ ان کے بقول پارٹی آصف زرداری کے فیصلوں کے حق میں نہیں ہے۔
نواز شریف نے قانون دان احمد رضا قصوری کا نام لیتے ہوئے کہاکہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو جس مقدمہ میں پھانسی کی سزا ہوئی تھی اس کی ایف آئی آر احمد رضا قصوری نے درج کرائی تھی اور اب وہی شخص آصف زرداری کا وکیل ہے اور نواز شریف کے خلاف نااہلیت کے مقدمے میں کی حکومت کی پیروی کی ہے۔
انہوں نےکہا کہ شہباز شریف صوبے کے لیے اچھا کام کر رہے تھے جو بقول ان کے صدر آصف زرداری کو پسند نہیں آیا۔
نواز شریف کا کہنا ہے کہ ان کی نااہلی کے فیصلہ پر کہا جا رہا ہے کہ اس فیصلے پر افسوس ہے لیکن یہ فیصلہ قانون کے مطابق ہے ۔انہوں نے مزید کہاکہ کیا کل کو یہ بھی کہا جائے گا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کا فیصلہ افسوس ہے لیکن وہ فیصلہ قانون کے مطابق ہے۔ان کے بقول نہ تو ذوالفقار علی بھٹو کا فیصلہ قانون کے مطابق تھا اور نہ ہی ان کی نااہلی کا فیصلہ قانون کے مطابق ہے۔
نواز شریف نے کہا کہ انہوں نے بڑے خلوص کے ساتھ آصف زرداری کے ساتھ ہاتھ ملایا تھا لیکن ان کی کمر میں خنجر گھونپ دیاہے اور دھوکہ ان کے ساتھ نہیں بلکہ پوری قوم کے ساتھ کیا گیا ہے۔
انہوں نے جلسے میں موجود لوگوں سے لانگ مارچ میں شرکت کرنے کی اپیل کی۔ نواز شریف نے بتایا کہ وہ مصالحتی کمیٹی کی آمد کی وجہ سے ریلی میں شرکت نہ کرسکے۔
اس سے قبل سابق وزیر اعلیْ پنجاب شہباز شریف نے خطاب کرتےہوئے آصف زرداری پر نکتہ چینی کی اور کہا کہ وہ یہ مذاق چھوڑ دیں کہ ایک طرف مذاکراتی ٹیم بھجوائی ہے اور دوسری طرف صوبے میں گورنر راج لگاکر مویشوں کی منڈی لگائی ہے۔ ان کے بقول قومی خزانے کے وسائل استعمال کرکے خرید وفروخت کی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ نہ کسی این آر او کی پیداوار ہیں اور نہ ہی انہوں نے کسی سے فراڈ کیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ صدر زرداری نوازشریف کو اپنا بڑا بھائی کہتے تھے اور اب اسی بڑے بھائی کو ان ججوں سے نااہل قرار دلوادیا ہے جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا۔شہباز شریف نے صدر زرداری سے کہا کہ روٹی، کپڑا اور مکان ان کے بڑوں کا نعرہ تھا لیکن دو روپے سستی روٹی فراہم کرنے کا اعزاز مسلم لیگ نون کو ملا ہے۔
انہوں نے وزیر داخلہ رحمان ملک پر سخت تنقید کرتے ہوئے انہیں جھوٹا قرار دیا۔ شہباز شریف نے گورنر پنجاب، وفاقی وزیر منظور وٹو اور سینیٹر وقار احمد خان کو بھی نکتہ چینی کا نشانہ بنایا۔
شہبازشریف نے انقلابی شاعر حبیب جالب کی مشہور زمانہ نظم ْ ْ میں نہیں مانتاْ ْ ایک پھر ترنم کے ساتھ سنائی
ادھر رائے ونڈ میں اسفندیار ولی خان اور مولانا فضل الرحمن پر مشتمل مصالحتی ٹیم نے نواز شریف اور شہباز شریف سے ملاقات کی۔ تاہم شبہاز شریف ملاقات ادھوری چھوڑ کر ریلی میں شرکت کے لیے چلے گئے۔
ملاقات کے بعد مولانا فضل الرحمن نے ان بنیادی نکات کے بارے میں تفضل بتانے سے انکار کیا جس پر ان کے بقول اصولی اتفاق ہوچکا ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے وزیر اعلیْ اسلم ریئسانی نے مصالحت کی جو کوشش کررہے ہیں اس سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ شریف بردران سے ملاقات کے بعد وہ ایک دو روز میں دوبارہ صدر اور وزیر اعظم سے ملاقات کریں گے۔
دوسری جانب اسلم ریئسانی نے اسلام آباد میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کی اور بعد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شریف برداران کی نااہلی کا فیصلہ اور پنجاب میں گورنر راج غلط تھا۔
0 comments:
Post a Comment