Tuesday 3 March 2009

Who can be behind Lahore Attacks - Indians or Talaban? BBC Analysis

. Tuesday 3 March 2009

س کے پیچھے کون ہوسکتا ہے ؟ ممکن ہے کہ چوبیس گھنٹے میں پتہ چل جائے جیسا کہ حکومتِ پاکستان کی خواہش ہے۔یا ہوسکتا ہے کہ کبھی بھی پتہ نہ چلے جیسا کہ عموماً ہوتا ہے۔لیکن خبر آتے ہی قیاس آرائیوں کی مشین چل پڑی ہے۔

القاعدہ ہوسکتی ہے !
لیکن القاعدہ کیوں ہونے لگی۔ کیونکہ سری لنکا کا نہ فلسطین کے مسئلے سے کوئی تعلق ہے۔ نہ اس نے سن نوے میں عراق کے خلاف جنگ میں اپنا کوئی فوجی بھیجا۔ نہ دو ہزار تین کی جنگِ عراق میں کسی بھی طور امریکہ کی مدد کی۔ نہ اس کا کوئی فوجی کبھی افغانستان گیا۔ اور نہ ہی سری لنکا نے القاعدہ کے کسی سرگرم رکن یا مشتبہ حامی کو کبھی امریکہ کے حوالے کیا اور نہ ہی امریکہ نے کسی القاعدہ حامی سے راز اگلوانے کے لئے سری لنکا کی سیکورٹی فورسز کی پرتشدد خدمات حاصل کیں۔

کیا بھارت ملوث ہو سکتا ہے؟
بظاہر لاہور کا حملہ اسی انداز میں کیا گیا ہے جس طرح ممبئی میں دس دہشت گرد حملہ آور ہوئے تھے۔ چنانچہ پاکستان کی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا کے بعض حلقے ان خطوط پر سوچ سکتے ہیں کہ بھارت کے کسی ادارے نے اسکور برابر کرنے اور پاکستان کو مزید بین الاقوامی بدنامی اور تنہائی کی جانب دھکیلنے کے لیے یہ حملہ منظم کروایا ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں ممالک کی ایجنسیاں اپنی اپنی حکومتوں کی پالیسیوں کے برعکس دوبدو جنگ میں خود کو جھونک چکی ہوں۔

طالبان ہوسکتے ہیں !
اگر آپ کبھی صوبہ سرحد کے دوردراز پہاڑی یا قبائیلی علاقوں میں جائیں تو آپ کو کچھ نظر آئے یا نہ آئے چند بچے لق و دق مقامات پر کرکٹ کھیلتے ضرور نظر آئیں گے۔ ان میں مذہبی مدرسوں کے نوعمر کھلاڑیوں کی ایک اچھی خاصی تعداد بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ بلکہ گذشتہ برس تو اسلام آباد میں مدارس کی ٹیموں کے درمیان کرکٹ ٹورنامنٹ بھی منعقد ہوچکا ہے۔ ان کے ہیرو عمران خان، شاہد آفریدی، یونس خان، عرفان پٹھان، جے سوریا اور تندولکر جیسے لوگ ہیں۔

طالبان یا کسی اور مذہبی گروہ نے اب تک یہ فتوی بھی نہیں دیا ہے کہ کرکٹ کوئی غیر اسلامی کھیل ہے۔ جبکہ لاہور میں جو کچھ ہوا ہے وہ اس طرح کا خودکش حملہ بھی نہیں ہے جو عموماً القاعدہ یا طالبان کا ٹریڈ مارک سمجھا جاتا ہے۔

تامل ٹائیگرز ہوسکتے ہیں !
کراچی میں اگرچہ سری لنکا کے بہت سے باشندے غیرقانونی طور پر مقیم ہیں لیکن ان کی کوئی سیاسی سرگرمی فی الحال نہ تو سراغرساں ایجنسیوں اور نہ ہی میڈیا کے ریڈار پر ہے۔ زیادہ تر سری لنکن گھریلو ملازمتیں کرتے ہیں۔ اس وقت سری لنکا کے تامل ٹائگرز عسکری لحاظ سے آخری سانسیں لے رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے پے درپے شکست سے تنگ آکر انتہائی مایوسی کے عالم میں پاکستان میں کسی گروہ کو اس کاروائی کا ٹھیکہ دے دیا ہو۔ لیکن یہ مفروضہ اس لیے بعید از قیاس ہے کہ پاکستانی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کا ہمیشہ سری لنکا کی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ سے قریبی تعلق رہا ہے۔اور کبھی بھی یہ خبر نہیں آئی کہ تامل ٹائگرز پاکستان میں کسی بھی انداز میں متحرک رہے ہیں۔

ہوسکتا ہے کہ ممبئی حملوں کے بعد پاکستان پر پڑنے والے دباؤ سے توجہ ہٹانے کے لئے پاکستان کی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اندر کسی گروہ نے اپنے طور پر یہ کاروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہو۔ یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی اور گروہ سرکاری پردے میں یہ کھیل کھیلنے پر آمادہ ہوگیا ہو تاکہ پنجاب کے سیاسی بحران اور وکلا تحریک جیسے چیلنج کو امن و امان کی محذوشی کے قالین میں لپیٹ کر کوٹا جاسکے۔

بھارت ملوث ہوسکتا ہے۔
بظاہر لاہور کا حملہ اسی انداز میں کیا گیا ہے جس طرح ممبئی میں دس دہشت گرد حملہ آور ہوئے تھے۔ چنانچہ پاکستان کی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا کے بعض حلقے ان خطوط پر سوچ سکتے ہیں کہ بھارت کے کسی ادارے نے اسکور برابر کرنے اور پاکستان کو مزید بین الاقوامی بدنامی اور تنہائی کی جانب دھکیلنے کے لیے یہ حملہ منظم کروایا ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں ممالک کی ایجنسیاں اپنی اپنی حکومتوں کی پالیسیوں کے برعکس دوبدو جنگ میں خود کو جھونک چکی ہوں۔

پاکستانی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ ہوسکتی ہے !
ہوسکتا ہے کہ ممبئی حملوں کے بعد پاکستان پر پڑنے والے دباؤ سے توجہ ہٹانے کے لئے پاکستان کی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اندر کسی گروہ نے اپنے طور پر یہ کاروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہو۔ یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی اور گروہ سرکاری پردے میں یہ کھیل کھیلنے پر آمادہ ہوگیا ہو تاکہ پنجاب کے سیاسی بحران اور وکلا تحریک جیسے چیلنج کو امن و امان کی محذوشی کے قالین میں لپیٹ کر کوٹا جاسکے۔

کوئی فرقہ وارانہ یا جہادی گروہ ملوث ہوسکتا ہے !

سن دو ہزار دو میں کراچی کے شیرٹن ہوٹل کے باہر ایک خودکش حملے میں اس وقت متعدد افراد ہلاک و زخمی ہوئے جب نیوزی لینڈ کی کرکٹ
ٹیم ہوٹل سے باہر نکل رہی تھی۔ حکومتی ایجنسیوں نے دعوی کیا تھا کہ اس واردات میں کالعدم لشکرِ جھنگوی ملوث تھا۔ چنانچہ ممکن ہے کہ تازہ کاروائی بھی اسی گروہ کی ہو یا پھر کالعدم لشکرِ طیبہ کا ردِ عمل ہو جسے ممبئی بم حملوں میں ملوث قرار دے کر حکومتِ پاکستان اس کے گرد شکنجہ کس رہی ہے۔

یہ حملہ ایک ایسے ماحول میں ہوا ہے جب گذشتہ ایک ہفتے سے لاہور سمیت پورے صوبہ پنجاب میں پولیس افسران اور امن و امان کے ذمہ دار اہلکاروں کے مسلسل تبادلے ہورہے ہیں اور وہ اپنی ذاتی بقا کے تحفظ میں مصروف ہیں۔

0 comments: